کہتے ہیں کہ غالب کا انداز بیاں اور ہے

دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو

دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
چلو کچھ تو میرا خیال کرتے ہو

شہر دل میں یہ اداسیاں کیسی
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو

مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے
تم بھی جینا محال کرتے ہو

اب کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بے مثال کرتے ہو


اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ھیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نھی

 ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں او

تعارف۔۔

خاندان اور غالب کی نجی زندگی۔۔۔




والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ یہ خاندان آگرہ کے ایک محلے میں رہتا تھا۔ 27 دسمبر1797 کو عبداللہ بیگ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسد اللہ بیگ رکھا گیا زندگی کے چند برس ہی والد کی شفقت اور پیار نصیب ہوا۔ وہ ایک جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور یوں غالب کم عمری میں یتیم ہو گئےپرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔




شادی۔۔۔




13 سال کی عمر میں اسد اللہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد آبائی وطن چھوڑ کر دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔

اب زندگی اور ضروریات کا تقاضا اور تھا۔ شادی کے بعد اخراجات اور مالی مسائل بڑھ گئے۔ مے نوشی نے بھی مشکلات سے دوچار کیا اور غالب مقروض ہو گئے۔

مالی پریشانیوں نے مجبور کیا تو شاہی دربار میں ملازمت کی کوشش کی۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ انھیں تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا۔

بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دیا۔ اسی کے ساتھ وظیفہ مقرر ہوا۔




غدر اور مرزا کی پنشن۔۔۔




غدر کے بعد مرزا غالب کو ایک مرتبہ پھر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جو پنشن ملتی تھی وہ بند ہو گئی۔ گزر بسر مشکل اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ گئے۔

1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور تک کسی طرح احوال پہنچایا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار باندھ دیے۔ کہتے ہیں مرزا غالب یہ وظیفہ تادمِ مرگ پاتے رہے۔

مرزا غالب اور شاعری
یہ بات کسی قدر عجیب تو ہے کہ اسد اللہ خاں غالب جو خود فارسی کو اردو کلام پر ترجیح دیتے تھے، ان کی وجہِ شہرت اردو شاعری ہے۔ آج وہ دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں اور اردو زبان کے عظیم شاعر کہلاتے ہیں۔
مرزا غالب کو اردو اور فارسی شاعری میں یدِطولیٰ حاصل تھا جب کہ ان کی نثر بھی کمال کی ہے۔ مرزا غالب کے خطوط اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

غالب کی شاعری کو موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے گویا ایک جہان آباد ہے۔ وہ دنیا دار بھی ہیں، عاشق مزاج اور رندِ بلا نوش بھی۔ خدا پرست اور شاکی بھی۔ درویش اور فلسفی ہی نہیں مرزا غالب شوخی اور ظرافت میں بھی آگے ہیں۔
غالب کی ژرف نگاہی کے ساتھ ان کی سادہ بیانی ہی ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی ہے۔

تصانیف۔۔۔
ﺩﯾﻮﺍﻥ ِ ﻏﺎﻟﺐ
: ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﻼﻡ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻟﻮ ﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻗﺼﺎﺋﺪ، ﻗﻄﻌﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺭﺑﺎﻋﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ۔
ﺩﺳﺘﻨﺒﻮ :
ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ 1850 ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ 1857 ﺗﮏ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺩﺭﺝ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ 1858 ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
۔ﻣﮩﺮ ﻧﯿﻤﺮﻭﺯ
: ﺗﯿﻤﻮﺭ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻟﮑﮭﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﺣﮑﯿﻢ ﺍﺣﺴﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﺳﮯ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﯽ ﺟﺴﮯ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﯿﺎ۔
ﻗﺎﻃﻊ ﺑُﺮﮨﺎﻥ :
ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻟﻐﺖ ‘ ﺑﺮﮨﺎﻥِ ﻗﺎﻃﻊ ’ ﺍﺯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﺒﺮﯾﺰﯼ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﮯ۔ ﻗﺎﻃﻊ ﺑﺮﮨﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ 1861 ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﺮﺍﺿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ‘ ﺩُﺭﻓﺶ ﮐﺎﻭﯾﺎﻧﯽ ’ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ 1865 ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﯿﺎ
۔ﻣﯿﺨﺎﻧۂ ﺁﺭﺯﻭ
: ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺍﯾﮉﯾﺸﻦ 1845 ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮉﯾﺸﻦ ﭼﮭﭙﮯ
۔ﺳﺒﺪ ﭼﯿﻦ
: ﺍﺱ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﻼﻡ 1867 ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ۔ ﺍﺱ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺜﻨﻮﯼ ﺍﺑﺮ ﮔﮩﺮﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻭﮦ ﮐﻼﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﻠﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺩﻋﺎﺋﮯ ﺻﺒﺎﺡ : ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﺍﻟﺼﺒﺎﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮨﮯ۔ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﻡ ﮐﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﻧﺠﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﻋﺒﺎﺱ ﺑﯿﮓ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻋﻮﺩﮨﻨﺪﯼ :
ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ 1868 ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ۔ﺍﺭﺩﻭﺋﮯ ﻣﻌﻠﯽٰ : ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ 1869 ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺍ۔
ﻣﮑﺎﺗﯿﺐ ﻏﺎﻟﺐ
: ﻣﺮﺯﺍ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺧﻄﻮﻁ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺭﺍﻣﭙﻮﺭ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﮯ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﮞ ﻋﺮﺷﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ 1937 ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﯿﺎ
۔ﻧﮑﺎﺕ ﻏﺎﻟﺐ ﺭﻗﻌﺎﺕ ﻏﺎﻟﺐ
: ﻧﮑﺎﺕ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺻَﺮﻑ ﮐﮯ ﻗﻮﺍﻋﺪ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﻗﻌﺎﺕ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﮑﺘﻮﺏ ‘ ﭘﻨﺞ ﺁﮨﻨﮓ ’ ﺳﮯ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﺭﺝ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻏﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻻﻝ ﺁﺷﻮﺏ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﯾﮧ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﮧ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻗﺎﺩﺭﻧﺎﻣﮧ :
ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﻋﺎﺭﻑ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﭨﮫ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﻗﺎﺩﺭﻧﺎﻣﮧ ‏[ 16 ‏] ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ‘ ﺧﺎﻟﻖ ﺑﺎﺭﯼ ’ ﮐﯽ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻟﻐﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ

وفات۔۔۔
15 فروری 1869 کو یہ سخن وَر ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گیا تھا، مگر اس کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ دہلی میں‌ غالب کا مقبرہ اب ان کی ایک یادگار ہے

؎ ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے ،
وہ ہر ایک بات پے کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔

منتخب کلام۔۔۔

دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بہ قدرِ لذّتِ آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں



ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے


مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے

پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیرِ بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور
’فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو‘


یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
جدید تر اس سے پرانی

Publicidade

Post ADS 2

نموذج الاتصال