غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا؟

غیر اللہ سے مدد مانگنا

(استبداد و استعانت)

سوال:استمداد واستِعانت سے کیا مُراد ہے؟

جواب: اللہ عزوجل کو حقیقی مددگار جانتے ہوئے انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور اولیاء اللہ رحم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا ’’استمداد‘‘کہلاتاہے اور ’’استِعانت‘‘کا بھی یہی مطلب ہے۔

سوال:کیاانبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور اولیاء رحم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جاسکتی ہے؟

جواب:انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور اولیا اللہ سے مدد مانگنا بلا شبہ جائز ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو ربّ تعالیٰ ہی کی ہے اور یہ سب حضرات اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد کرتے ہیں کیونکہ ہر شے کا حقیقی مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کے بغیر کوئی مخلوق کسی ذرّہ کی بھی مالک و مختار نہیں ہو تی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عطا اور فضلِ عظیم سے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو کونین کا حاکم و مختار بنایا ہے اور حضو ر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اور دیگر انبیائے کرام و اولیائے عِظام اللہ تعالیٰ کی عطا سے(یعنی اس کی دی ہوئی قدرت سے)مدد فرما سکتے ہیں۔

سوال:اس کی کیا دلیل ہے؟

جواب: اللہ تعالی کی عطا سے انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام و اولیاءِ عِظام رحم اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ سورۃُ التحریم پارہ 28 کی آیت 4 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:


فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴) (پ۲۸،التحريم:۴)

تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔

حدیث شریف میں حضرت سیّدُنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پُر نورسیّدُ العالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں :’’جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے : اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ،کہ اللہ کے  کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔‘‘ [1]

سوال:کیا انبیاءِ کرام اوراولیاء اللہ سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگی جاسکتی ہے؟

جواب:جی ہاں !جس طرح زندگی میں ان سے توسّل کرنا اور مددمانگناجائز ہے اسی طرح ان کے وصال کے بعد بھی جائز ہے۔ اللہ تعالی کے پیارے نبی اور ولی اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں۔

سوال:مدد فرمانے کے ثبوت میں کوئی واقعہ ہو تو بیان کریں ؟

جواب:اس پر ایک نہیں بلکہ بے شمار واقعات ذکر کئے جا سکتے ہیں، یہاں ایک واقعہ ملاحظہ ہو،چُنانچہ امام طَبَرانی، علامہ ابنُ الْمُقْری اور امام ابو الشیخ ۔یہ تینوں حدیث کے بہت بڑے امام گزرے ہیں اوریہ تینوں ایک ہی زمانہ میں مدینۂ منورہ کی ایک درسگاہ میں حدیث کا علم حاصل کرتے تھے ، ایک بار ان تینوں طُلباء ِعلمِ حدیث پر ایک وقت ایسا گزرا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا ، روزے پر روزے رکھتے رہے ، مگر جب بھوک سے نڈھال ہوگئے اور ہمّت جواب دے گئی تو تینوں نے رحمتِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضۂ اطہر پر حاضر ہوکر فریاد کی یارسولَ اللہ! ہم لوگ بھوک سے بیتاب ہیں۔ یہ عرض کرکے امام طَبَرانی توآستانۂ مبارکہ ہی پر بیٹھے رہے اور کہا:

اس در پر موت آئے گی یا روزی، اب یہاں سے نہیں اُٹھوں گا۔ امام ابو الشیخ اور ابنُ الْمُقْری اپنی قیام گاہ پر لوٹ آئے، تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، دونوں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو عَلَوِی خاندان کے ایک بزرگ دوغلاموں کے ساتھ کھانا لے کر تشریف فرماہیں اور یہ فرمارہے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ابھی ابھی مجھے خواب میں اپنی زیارت سے مشرّف فرما کر حکم فرمایا کہ میں آپ لوگوں کے پاس کھانا پہنچادوں چُنانچہ جو کچھ مجھ سے فی الوقت ہوسکا حاضر ہے۔ [2]

[1] ۔۔۔۔ معجم کبیر،۱۵ / ۱۱۷،حدیث:۲۹۰

[2] ۔۔۔۔ تذکرةُ الحفّاظ، رقم: ۹۱۳، ۳ / ۱۲۱، ملخصاً

جدید تر اس سے پرانی

Publicidade

Post ADS 2

نموذج الاتصال