دریائے دجلہ کی تاریخ – ایک تفصیلی جائزہ

Publicidade


دریائے دجلہ (Tigris River) دنیا کے قدیم ترین دریاؤں میں سے ایک ہے اور انسانی تہذیب کے ابتدائی مراکز میں سے ایک کی بنیاد رہا ہے۔ یہ دریا عراق، ترکی اور شام سے گزرتا ہے اور دریائے فرات کے ساتھ مل کر قدیم "بین النہرین" (Mesopotamia) کی تہذیبوں کی آبی گزرگاہ بنا۔ اس دریا کا ذکر کئی تاریخی متون، مذہبی کتابوں اور تہذیبی داستانوں میں ملتا ہے۔
1. نام اور زبان میں ذکر
دجلہ کا نام قدیم سامی زبانوں، عربی، فارسی اور ترکی میں مختلف انداز میں ملتا ہے:
سومیری زبان میں اسے "Idigna" یا "Idigina" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب "تیز بہاؤ والا پانی" ہے۔
یونانی زبان میں اسے "Tigris" کہا جاتا تھا، جو فارسی کے "Tigra" (تیز) سے نکلا ہے۔
عربی میں "دجلہ" کہلاتا ہے۔
2. قدیم تہذیبیں اور دریائے دجلہ
(i) سمیری تہذیب (Sumerian Civilization) – 3100 قبل مسیح
دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان زمین کو "بین النہرین" کہا جاتا تھا، جہاں دنیا کی پہلی شہری تہذیبیں ابھریں۔
سمیریوں نے انہی دریاؤں کے کنارے زراعت، تحریر (Cuneiform Script) اور شہروں کی بنیاد رکھی۔
مشہور شہر: اریدو، اُر، اُرک (Uruk)، لاگاش وغیرہ۔
(ii) اکدی سلطنت (Akkadian Empire) – 2334 قبل مسیح
شاہ سرگونِ اکد نے دجلہ و فرات کے کنارے پہلی بڑی سلطنت قائم کی۔
اکدی تہذیب نے سمیری ثقافت کو اپنایا اور تحریری زبان کو فروغ دیا۔
(iii) بابل اور آشوریہ (Babylon & Assyria) – 1900-500 قبل مسیح
بابل (Babylon) اور نینویٰ (Nineveh) جیسے تاریخی شہر اسی دریا کے کنارے آباد تھے۔
حمورابی (Hammurabi) نے 18ویں صدی قبل مسیح میں مشہور "قانون حمورابی" بنایا، جو دنیا کے قدیم ترین قوانین میں شامل ہے۔
آشوری سلطنت (Assyrian Empire) نے نینویٰ کو اپنا دارالحکومت بنایا، جو دجلہ کے کنارے واقع تھا۔
(iv) ایرانی اور یونانی ادوار – 550-330 قبل مسیح
ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) نے بابل اور دجلہ کے کنارے موجود دیگر علاقوں پر قبضہ کیا۔
سکندرِ اعظم (Alexander the Great) نے 331 قبل مسیح میں دریائے دجلہ کے قریب ایرانی بادشاہ دارا سوم (Darius III) کو شکست دی۔
3. اسلامی تاریخ میں دریائے دجلہ
(i) عباسی خلافت (Abbasid Caliphate) – 750-1258ء
بغداد، جو دریائے دجلہ کے کنارے آباد ہوا، 762ء میں عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے بطور دارالحکومت تعمیر کیا۔
بغداد سائنسی، فلسفیانہ اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔
دارالحکمت (House of Wisdom) اسی شہر میں قائم ہوا، جہاں یونانی، فارسی اور ہندی علوم کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔
(ii) منگول حملہ – 1258ء
چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور دریائے دجلہ میں بے شمار کتابیں پھینکی گئیں، جن سے پانی کا رنگ سیاہ ہو گیا۔
عباسی خلافت کا زوال اسی حملے کے نتیجے میں ہوا۔
4. جدید دور میں دریائے دجلہ
(i) سلطنت عثمانیہ اور نوآبادیاتی دور
16ویں صدی میں عثمانیوں نے عراق پر قبضہ کیا، اور دریائے دجلہ کی گزرگاہوں کو تجارت اور نقل و حمل کے لیے استعمال کیا۔
1918ء میں برطانوی فوج نے عثمانیوں کو شکست دے کر عراق پر قبضہ کر لیا۔
(ii) عراق کی آزادی اور دجلہ کی اہمیت
20ویں صدی میں عراق کی آزادی کے بعد، دجلہ کو زرعی ترقی اور آبی منصوبوں کے لیے استعمال کیا گیا۔
سد موصل اور سد سامراء جیسے بند تعمیر کیے گئے۔
(iii) ترکی، شام اور عراق کے درمیان تنازع
ترکی نے دجلہ پر کئی ڈیم بنائے، جن میں آتاترک ڈیم (Ataturk Dam) شامل ہے، جس کی وجہ سے عراق میں پانی کی قلت پیدا ہوئی۔
آج بھی دجلہ کا پانی ایک بین الاقوامی تنازع ہے۔
5. دریائے دجلہ کی ثقافتی اور مذہبی اہمیت
قرآن، تورات اور بائبل میں دجلہ اور فرات کا ذکر "جنت کی نہریں" کے طور پر ملتا ہے۔
حضرت نوحؑ کی کشتی کے حوالے سے بھی بعض روایات میں اس دریا کا ذکر کیا جاتا ہے۔
کئی مشہور شعرا، ادیب، اور فلسفی اسی دریا کے کنارے پروان چڑھے، جیسے ابن سینا، جاحظ، الکندی وغیرہ۔
نتیجہ
دریائے دجلہ ایک ایسا دریا ہے جو نہ صرف مادی وسائل بلکہ تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے بھی بے حد اہم ہے۔ یہ دریا قدیم ترین سلطنتوں، علمی تحریکوں، مذہبی روایات اور جدید سیاسی مسائل میں ہمیشہ ایک مرکزی حیثیت رکھتا رہا ہے۔ آج کے دور میں پانی کی قلت، ماحولیاتی تبدیلی اور سیاسی تنازعات نے دجلہ کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔
دریائے دجلہ کا جغرافیہ
دریائے دجلہ (Tigris River) مشرق وسطیٰ کا ایک اہم دریا ہے جو ترکی، شام اور عراق سے گزرتا ہے۔ یہ دریائے فرات کے ساتھ مل کر "شط العرب" (Shatt al-Arab) بناتا ہے، جو بالآخر خلیج فارس میں جا گرتا ہے۔ دجلہ کو پانی کے بہاؤ، زرخیز زمینوں اور تہذیبی اہمیت کے باعث "زندگی دینے والا دریا" بھی کہا جاتا ہے۔
1. ماخذ اور گزرگاہ
(i) ماخذ (Origin)
دریائے دجلہ کا آغاز مشرقی ترکی کے طوروس پہاڑوں (Taurus Mountains) سے ہوتا ہے۔
یہ تقریباً 1,850 کلومیٹر لمبا ہے۔
دجلہ کا منبع بحیرہ اسود کے قریب واقع ہے اور یہ کئی چھوٹے ندی نالوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔
(ii) گزرگاہ (Course)
دریائے دجلہ ترکی، شام اور عراق سے گزرتا ہے:
ترکی – جنوب مشرقی ترکی میں 400 کلومیٹر تک بہتا ہے۔
شام – شام میں صرف 50 کلومیٹر کی مختصر گزرگاہ رکھتا ہے۔
عراق – عراق میں داخل ہونے کے بعد بغداد، موصل، تکریت اور بصرہ جیسے بڑے شہروں سے گزرتا ہے۔
شط العرب – آخر میں دریائے فرات سے مل کر "شط العرب" بناتا ہے جو خلیج فارس میں جا گرتا ہے۔
2. معاون ندیاں (Tributaries of Tigris)
دجلہ میں کئی معاون ندیاں شامل ہوتی ہیں جو اس کے پانی کے بہاؤ میں اضافہ کرتی ہیں۔
(i) دائیں کنارے کی ندیاں (Right Bank Tributaries - مشرقی سمت سے آنے والی ندیاں)
گریزون (Greater Zab) – ترکی اور عراق سے آتی ہے، موصل کے قریب ملتی ہے۔
چھوٹا زاب (Lesser Zab) – ایران سے آتا ہے اور کرکوک کے قریب دجلہ میں شامل ہوتا ہے۔
دیالہ (Diyala) – ایران سے بہتا ہوا بغداد کے قریب دجلہ سے جا ملتا ہے۔
کرون (Karkheh) – ایران سے آکر جنوبی عراق میں شامل ہوتا ہے۔
(ii) بائیں کنارے کی ندیاں (Left Bank Tributaries - مغربی سمت سے آنے والی ندیاں)
خابور (Khabur) – شام کے مشرقی حصے سے نکلتا ہے۔
عظیم (Adhaim) – ایک موسمی دریا جو عراق میں زراعت کے لیے اہم ہے۔
3. اہم شہر اور مقام (Major Cities & Landmarks)
دجلہ کے کنارے کئی بڑے اور تاریخی شہر آباد ہیں:
(i) ترکی
دیاربکر (Diyarbakır) – تاریخی شہر جو کرد ثقافت اور قدیم عثمانی اثرات کا مرکز ہے۔
(ii) شام
حسکہ (Al-Hasakah) – دجلہ شام میں مختصر فاصلے تک بہتا ہے، جہاں یہ زراعت کے لیے اہم ہے۔
(iii) عراق
موصل (Mosul) – عراق کا دوسرا بڑا شہر، جہاں دجلہ مشہور قدیم آثار "نینویٰ" کے قریب بہتا ہے۔
تکریت (Tikrit) – تاریخی شہر، جو مشہور عرب رہنما صلاح الدین ایوبی کا آبائی مقام ہے۔
بغداد (Baghdad) – دجلہ کے کنارے واقع عراق کا دارالحکومت، جو عباسی خلافت کا مرکز رہا ہے۔
کوت (Kut) – یہاں ایک مشہور ڈیم اور آبپاشی کے منصوبے ہیں۔
بصرہ (Basra) – عراق کا بندرگاہی شہر جہاں دجلہ اور فرات "شط العرب" بناتے ہیں۔
4. ماحولیاتی اور موسمیاتی خصوصیات
(i) موسمی حالات (Climate & Rainfall)
دجلہ کا پانی بارشوں، برفباری اور معاون ندیوں پر منحصر ہے۔
زیادہ تر بارش ترکی اور ایران کے پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہے، جو بہار میں دریا کے بہاؤ میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
گرمیوں میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے، خاص طور پر عراق میں۔
(ii) زرخیز زمینیں (Fertile Plains & Agriculture)
دجلہ کا پانی میسوپوٹیمیا کے میدانوں کو زرخیز بناتا ہے۔
گندم، جو، کھجور کے باغات اور دیگر فصلیں یہاں کاشت کی جاتی ہیں۔
(iii) آبی حیات اور جنگلی حیات (Aquatic & Wildlife)
مچھلیوں کی کئی اقسام، خاص طور پر کیٹ فش (Catfish) اور کارپ (Carp) یہاں پائی جاتی ہیں۔
مگرمچھ اور دریائی پرندے بھی کبھی یہاں عام تھے، مگر اب کم ہو گئے ہیں۔
5. جدید آبی منصوبے اور تنازعات
(i) ڈیم اور آبی ذخائر (Dams & Water Projects)
دجلہ پر کئی ڈیم اور آبی منصوبے بنائے گئے ہیں:
آتاترک ڈیم (Ataturk Dam) – ترکی
سد موصل (Mosul Dam) – عراق
سد سامراء (Samarra Barrage) – عراق
(ii) پانی کے تنازعات (Water Disputes)
ترکی نے دجلہ پر کئی ڈیم بنائے ہیں، جن سے عراق میں پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
شام اور عراق ترکی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پانی کے بہاؤ کو اپنی مرضی سے روکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کی کمیابی نے دجلہ کے پانی کو مزید کم کر دیا ہے۔
نتیجہ
دریائے دجلہ جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم دریا ہے، جو تین ممالک کو سیراب کرتا ہے اور ہزاروں سال سے انسانی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ اس کا پانی زراعت، صنعت، نقل و حمل اور ثقافتی ورثے کے لیے انتہائی ضروری ہے، لیکن بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات اور سیاسی تنازعات کی وجہ سے یہ دریا بحران کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔





All reactions:9090

Post ADS 2

جدید تر اس سے پرانی

نموذج الاتصال