میری ہے پرواہ نہ میری رہی اسے وفا یاد


میری ہے پرواہ نہ میری رہی اسے وفا یاد
اب اسے کچھ بھی نہیں اپنی خوشیوں کے سوا یاد

سب بھول گیا میں، بس مجھے رہا وہ بے وفا یاد
لیکن معلوم نہیں اس نے بھی مجھے کبھی ہو کیا یاد


آنسوؤں سے کہتا ہوں اب داستان دل
میں وہ فقیر ہوں جسے نہیں کوئی صدا یاد

مے پی تھی میں نے تلخیٔ شدتِ غکم کرنے کو
ساقی وہ آنے لگے ہیں مجھے پہلے سے زیادہ یاد


ایک وہ ہیں جن کے خیال میں نہ آئے کبھی ہم
اک ہم ہیں، ان کے دل کے دھڑکنے کی ہے صدا یاد

جان ادا! ستم پہ ستم ڈھانا ہے تمھیں یاد مگر
دینی ہے اپنے مریض کو دوا، یہ نہیں رہا یاد؟


اسی کا ورد کرتا پھروں گا گلی گلی، نگر نگر
سب بھول چکا ہوں، رہ گیا ہے فقط نام ترا یاد

دن تو گزر جاتا ہے جیسے تیسے مصروفیات میں
رات بھر آتی ہے تیری اک اک ادا یاد



کیا ہوا جو تم بھول گئے میری وفائیں یارا!
دی تھی کبھی تم نے، ہے ترے دامن کی ہوا یاد

اس قدر ٹوٹ کے بکھر گیا ہوں جاناں!
نہ ہے آج کل مجھے جینا یاد، نہ ہے مرنا یاد


یہ دل ہے منتظر تمھارا، کبھی کسی کا ہو گا نہیں
مجھے اپنا ہے ہر پیمان یاد، ہر عہد، ہر وعدہ یاد

منہ کے بل گر پڑتے ہیں چلتے چلتے ہم عمر
آتی ہے جب راہِ محبت میں ان کی لغزشِ پا یاد
جدید تر اس سے پرانی

Publicidade

Post ADS 2

نموذج الاتصال